Thursday, January 31, 2013

1400 تاریخ اسلامی پر مختصر نظر



1400 سالہ اسلامی تاریخ پر ایک مختصر نظر۔
------------------------------------------------
ایک بار ضرور پڑھ لیجیۓ گا، کچھ لمبا ضرور ہے، لیکن 1400 سال جتنا لمبا نہیں ہے، ہو سکتا ہے، یہ چند منٹ کی مصروفیت آپ کو صراط مستقیم دکھا دے، اور اور آپ کی ساری زندگی کا وقت آپ کا اثاثہ بن جاۓ۔۔۔۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، سیدنا ابوکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی، سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما بالترتیب مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوۓ، آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے 6 ماہ حکومت کی، اور پھر مسلم امّہ کے وسیع تر مفاد میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر دستبردار ہوۓ، یوں خلافت راشدہ کا اختتام اور ملوکیت کی شروعات ہوئی، اور بنو امیہ کے پہلے بادشاہ اور ملوکیت کے واحد امانت دار اور سچے حاکم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہوۓ، جنہوں نے پورے عرب پر اور جہاں جہاں اسلام کا جھنڈا لہراتا رہا وہاں تک تقریبا کم و بیش 18 سے 19 سال حکومت کی۔
آپ کا احترام سب مسلمانوں پر لازم ہے، کہ بہت ساری احادیث آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرتی ہیں، اور آپ نے اپنے دور حکومت کو بے حد منصفانہ اور دین اسلام کی خدمت میں صرف کیا۔

یہاں پر یاد رہے، کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا، تو منافقین کی وجہ سے مسلمانوں میں جنگ و جدال کے باعث بہت سارے اختلافات پیدا ہو چکے تھے، جس کے بعد ہمیں دو نظام حکومت ملے، ایک تابع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خلافت راشدہ۔ جس کی بنیاد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے رکھی، جس پر کئ احادیث بھی دلالت کرتی ہیں، ، اور دوسری ملوکیت (یعنی بادشاہت)، جس کی بنیاد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رکھی، اور اس کا صحیح حق بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی ادا کیا۔

حضرت امیر معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کے بعد یزید کا دور شروع ہوا، لیکن چونکہ بہت سارے علماء اور صلحاء کے ساتھ ساتھ اہلبیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہما بھی اس کے اس منصب کو حق نہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ اپنی بادشاہت کو قائم کرنے کے شوق کو پورا کرنے کیلیۓ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تہ تیغ کرتے ہوۓ، مدینہ المنورۃ کی ویرانی اور وہاں قتل و غارت گری کا سزاوار بنا، ۔۔۔

اس کے بعد کبھی خلافت اور کبھی ملوکیت کا دور دورہ جاری رہا، ملوکیت والوں کے ہاں یزید بڑا پاک باز اور محترم ٹھڑا، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے اہل مدینہ ناحق اور باغی ٹھڑے، اور خلافت والوں کی طرف یزید ملعون اور پلید ٹھڑا، اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اہلبیت اطہار اور اہل مدینہ حق ٹھڑے۔ لیکن ان میں ایک گروہ اور بھی تھا، جس کا جھکاؤ تو ملوکیت کی جانب رہتا تھا، لیکن فتنہ و فساد برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا، یہ گروہ آپ کو آج بھی نظر آے گا، بس دل و جان سے نیوٹرل ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ گروہ ملوکیت کے مزے بھی لیتا ہے، اور خلافت کا جھوٹا نعرہ بھی اٹھاۓ رکھتا ہے، اور جب خلافت قائم ہو جاتی ہے، تو پھر شکوے اور شکایات سے لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہے، اس خوشامدی فتنہ پرور ٹولے کا مقصد بس مال بٹورنا اور فتنہ و فساد کا بازار سرگرم رکھنا ہوتا ہے، اور لوگ جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے، جن کا دین دلیلوں پر ہی قائم ہوتا ہے، وہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر ٹکڑیں مارتے ہوۓ تذبذب کا ہی شکار رہتے ہیں، اور آخر کار ان فتنہ پروروں کا ہی آلہ کار بن جاتے ہیں، کہ دین تو بہت مشکل ہے، مال پانی تو جمع ہو رہا ہے، اسے ہی جمع کرو۔۔۔

خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دورِ زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہوگئی تھی جن میں سب سے زیارہ زبردست تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنو ہاشم چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چاندان سے ہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو خلافت کا بنی امیہ سے خود کو زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔
بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعانِ علی کا طرفدار کہلاتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہلائے۔
دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضي اللہ تعالی عنہ کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا۔ شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آگیا۔

خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (686ھ) میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ بنو عباس کے غالب آنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ، امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے صاحبزادے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہوگیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبداللہ جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ 100ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کردیا اور اس طرح امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہوگئی۔

عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں منگول فاتح ہلاکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہوگئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خلافت تھی، تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے۔ عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہوگئی۔

پھر بہت ہی جنگ و جدال اور خون ریزی کے بعد سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے پر اناطولیہ میں طوائف الملوکی (یعنی ملوکیت) پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو عیسائیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہوگیا۔

خلافت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جو سچے عاشق رسول اور پکے سنی، اور غلام اہلبیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اور سچے ایماندار مسلمان تھے، جس کے حکمران ترک تھے۔ آج ہمیں مکۃ المکرمہ اور مدینت المنورہ میں جو تبرکات اور زیارات اور نشانات اور تاریخی مساجد دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ خلافت عباسیہ، اور بعد از خلافت عثمانیہ کے ہی مرہون منت ہیں، بیشک وہ اپس میں دولت و ثروت کیلیۓ لڑتے، لیکن وہ ان چیزوں اور تاریخی نشانات کا نہ صرف احترام کرتے تھ، بلکہ بوقت ضرورت اپنی اصلی حالت پر ہی مرمت کا کام بھی جاری رہتا تھا۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔

پھر جنگ و جدال اور عربوں میں دن بہ دن بڑھتے ہوۓ فتنے، اور نۓ نۓ نظریات اور منافقین کی چالیں رنگ لائی، جو کفار کا آلۂ کار بنے، اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خلافت کو پارہ پارہ کیا گیا، اور پوری کی پوری سلطنت عثمانیہ یعنی عرب و افریقہ کی ریاستوں کو احباب اور اغیار نے مل بیٹھ کر بانٹ لیا، اس طرح اپنوں ہی کی سازشوں کے بدولت تقریبا 625 سال خلافت عثمانیہ اور 1200 سالہ خلافت اسلامیہ کا سورج غروب ہوا، اور پھر ایک نۓ دور اور نۓ نظریات کی ابتدا ہوئی، جس میں یزید کو رضی اللہ عنہ، اور واقعۂ کرب و بلا میں حضرت حسین اور اہل بیت اطہار ر رضي اللہ تعالی عنہ اور اہل مدینہ کو ناحق کہا جانے لگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بحث و مباحثہ تجدید ایمان، اور تحقیق علم کے موضوعات سے شروع جگہ جگہ کروایا گیا، اس ابتدا کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خلافت سے ملوکیت کے نظریات ٹکڑاتے تھے، اور دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی، کہ ان پرانے نظریات کے لوگوں کے ساتھ ملکویت کا چلنا محال تھا، اس لیۓ ایک نیا نظام دین اور نئی اصطلاحات متعارف کروائی گئ، جو ایسی ہی تھیں، کہ کسی "دودھ پیتے ہوۓ کو کہنا، کہ پانی حلال ہے، تو پانی کیوں نہیں پیتا" ایسے ہی نظریات کو دولت اور طاقت اور "ڈیلنگ" کے ذریعے جگہ جگہ نشر کیا گیا، تا کہ یہ چدراہٹ دور دراز علاقوں تک قائم کی جا سکے۔ اور اس کام کیلۓ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، اور بہایا جا رہا ہے، لوگوں کے بچوں کو اغوا کر کر کے بی اپنے مدرسون میں لایا جاتا، ان کی تربیت اپنے مطابق کی جاتی پھر ان کو یا تو جہاد بنایا جاتا یا پھر ایسی جگہ مبلغ مقرر کیا جاتا، جہاں اپنے چودراہٹ کمزور نظر آتی، اور وہاں فتنہ و فساد معاذ اللہ قران و حدیث کے نام پر کیا جاتا، جو آج بھی ہم دیکھتے ہیں، اور جس کا خمیازہ یہ گلی گلی جھگڑے اور مناظرے اور خودکش حملوں کی صورت مین بھگت رہے ہیں، اور ہم اگر آنکھیں کھول کر غور سے دیکھیں، تو ہمیں اپنا ماضی بھی یاد آۓ گا، اور حال پر بھی عقل ٹھکانے آۓ گی، کہ اس غریبی کے دور میں بھی جہاں بجلی کا بل دینا اتنا ہی بڑا امتحان اور مشکل ہے، وہاں پر یہ نۓ نۓ مدرسے اور اسلحے سے لیس ٹولے کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں، اور ایک مدرسہ جسے نیشنل ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں جمعہ جمعہ آٹھ دن میں سنگ مرمر سے تعمیر ہونے والے محل نما یہ مدرسے کون انٹرنیشنل رجسٹرڈ کر رہا ہے، اور کون ان کو اسناد جاری کر رہا ہے، سوچنا چاہیۓ ہمیں، کہ ہم بنا تحقیق کس کی پیروی کر رہے ہیں؟؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں، کہ جسے ہم چھور رہے ہے، وہ ہی صحیح دین اسلام تھا، اور جس کو جذباتی ہو ہو کی قران و حدیٹ اور تحقیق کے نام پر کھینچ کھینچ کر پکڑ رہے ہے، وہی اصل فتنہ و فساد اور منافقت ہو؟؟؟ ۔۔۔ باقی ایک بات تو واضح ہے، کہ حکم اللہ کا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا، او ردین عشق و محبت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے، جس کے بغیر ہم صحیح پر قائم رہنے اور باطل کا منہ توڑنے کا جذبہ اور ہمت پیدا کر ہی نہیں سکتے۔۔۔  پلیز ایک بار رک کر سوچئے گا ضرور، کہ یہ جو ہمارے اردگرد تبلیغ و جہاد کے نعرے والے لوگ ہے، یہ کون ہے آخر؟؟؟ اور ان کا مقصد کیا ہے، کیا ان کی نظر میں آج مسلمان کوئی نہیں؟؟؟؟ یہ کس کو اچھا کہتے ہیں، اور کس کو برا۔۔۔ یہ سوچنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے، اللہ آپ کو اور میری راہنمائی فرماۓ، آمین۔ ثم آمین۔۔ ۔

صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلما تسلیما کثیرا

وفا کی آرزو کرنا


وفا کی آرزو کرنا
سفر کی جستجو کرنا
جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا
یہ اکثر ہو بھی جاتا ہے
کہ کوئی کھو بھی جاتا ہے
مقدر کو ستاؤ گے
تو پھر یہ سو بھی جاتا ہے
اگر تم حوصلہ رکھو
وفا کا سلسلہ رکھو
جسے تم خالق کہتے ہو
تو اُس سے رابطہ رکھو
میں یہ دعوے سے کہتا ہوں
کبھی نا کام نہ ہو گے
عشقِ حقیقی کو سمجھ جاؤ
کبھی بدنام نہ ہوگے۔۔۔

Saturday, January 19, 2013

جشنِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایک مکالمہ



:::::::جشنِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایک مکالمہ:::::: 

محمد عمر: السلام علیکم۔ 
ارمغان شیخ: وعلیکم اسلام ۔سنائے آج کیسے صبح صبح آگئے،دکان پرنہیں گئے؟ 
محمد عمر: آج تو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلّم ہے ، سارے مسلمان خوشیاں منا رہے ہے پیارے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے موقعہ پر۔ 
ارمغان شیخ :اچھا تو آج سارے مسلمان عید منارہے ہیں؟؟ 
محمد عمر:کیا آپ لوگ نہیں مناتے؟ 
ارمغان شیخ:عیدیں تو اسلام میں صرف دوہی ہیں، (١)عید الفطر اور (٢)عیدلاضحی۔ 
محمد عمر:ارے جناب وہ عیدیں فرض ہیں، اور یہ نفلی عید، جیسے عرفۃ کا دن اور جمعۃ المبارک بھی نفلی عید ہے۔۔ 
ارمغان شیخ: اچھا آپ ذرا یہ بتائیں یہ جو تیسری عید ہے ، کیا اس عید والے دن عید گاہ جاکر نماز عید ادا کی جاتی ہے ؟ 
محمد عمر:ارے یار عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلّم کیونکہ نفلی عید ہے، اس لئے اس عید کی کوئی خاص نماز نہیں ہوتی، عام وقت کی 5 نمازیں ہی پڑھی جاتی ہے۔ کیا آپ مسلمان نہین ہے۔ جو اتنی بات بھی نہیں معلوم؟؟ 
ارمغان شیخ:باقی دوعیدوں کی نمازیں پھر آپ کیوں پڑھتے ہیں؟ 
محمد عمر:ارے بابا وہ فرض ہے ناں، آپ کیوں نفلی عید کی نماز سے دین میں کوئی بدعت جاری کرنا چاہ رہے ہیں؟؟ 
ارمغان شیخ:لیکن عید کی تو نماز ہوتی ہے ناں؟
محمد عمر:ارے بھائی ہر خوشی کو عید کہتے ہیں، اور خوشی کے نوافل تو ہوتے ہیں، لیکن کوئی فرض یا واجب نماز نہین ہوتی، کیوں صبح صبح دماغ کی دہی بنا رہے ہو؟؟۔

 ارمغان شیخ:کیا عید میلادالنبی کی نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے ؟ 
محمد عمر: دیکھو! عید میلادالنبی کا معنی ہے آپ "نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے پیدائش کی خوشی" اور خوشی کے نوافل آپ اس دن بخوشی ادا کرسکتے ہو، کوئی منع نہیں ہے، البتہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی ولادت کے دن کو یاد رکھتے ہوۓ نفلی روزہ بھی رکھا تھا۔ 
ارمغان شیخ:کیا عید میلادالنبی منانے کا کہیں حکم ہے ؟ 
محمد عمر:دیکھو سنت اور نفل کا حکم نہیں ہوتا پاگل، اگر حکم ہو جاۓ تو وہ چیز واجب یا فرض ہو جاتی ہے، سنت اور نفل کہتے ہی اسے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کیا، لیکن حکم نہیں دیا ۔ 
ارمغان شیخ:کیا اس کی نماز ِعید منع ہے ؟ 
محمد عمر:بڑے ہی بدّھو ہو تم، اتنی دیر سے سمجھا رہا ہوں کہ یہ نفلی عید ہے، پھر بھی تم اسے فرض عید پر قیاس کر رہے ہو، لگتا ہے تمھاری تو دماغ کی رگیں ہی بند ہو چکی ہے، سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہے تم۔
ارمغان شیخ:ارے تم جاہل ہو، بدعتی ہو، بتاؤ سہی سے آپ کہنا کیا چاہتے ہو؟ 
محمد عمر: او بھائی میں بتانا یہ چاہتاہوں کہ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جہاں سب مسلمان مناتے ہیں، تو پھر تم اتنے سوال جواب کیوں کر رہے ہو، کیا تم مسلمان نہیں ہو؟؟؟ 

ارمغان شیخ: نہیں میں بس جاننا یہ چاہتا ہوں، کہ اسلام میں اس عید کا اگر کوئی ثبوت ہوتا، یا اگر یہ عید اسلام میں ہوتی تو باقی دوعیدوں کی طرح اسکی نماز بھی ہوتی ، اس کی فضیلت حدیث میں پائی جاتی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم اس کے احکام اور مسائل کو بیان فرمائے ہوتے۔
محمد عمر:دیکھو میرے بھائی، اگر تمھیں عید کا ہی ثبوت چاہیئے، تو پہلے عید کے لفظی معنی دیکھ لو، پھر ان کو قران اور حدیث میں تلاش کر لو، ثبوت خود بخود مل جاۓ گا، اور رہی بات نماز کی، تو میرے پیارے بھائی نماز فرض یا واجب کا ہی حکم ہوتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے بس امت کو مشقت سے بچانے کیلئے نماز تراویح باجماعت ترک کر دی تھی، تو وہ کیسے ایک اور نماز کا اس دن کیلئے حکم فرماتے، اسی لئے انہوں نے اس دن کی خوشی مں روزہ رکھا، اور وہ بھی ایسے کہ اس کا بھی حکم نہیں فرمایا، تا کہ امت مشقت میں نہیں پڑ جاۓ، اور بات شوق اور محبت تک رہ گئ، کہ جس کا شوق ہو اور محبت ہو، اس کو بعد والے کچھ منافق و منکر بھی پیدا ہوں گے، وہ تنگ نہ کر سکین، اور ایک دلیل قائم کر دی آپ نے کہ جو میرے محبوب ہے، وہ اس دن کو ضرور یاد رکھیں گے۔ اور حکم اسی لئے نہیں فرمایا تا کہ فرض یا واجب نہ ہو جاۓ، اور امت اپنی آسانی کو دیکھتے ہوۓ اس دن خوشی کا اظہار کر سکیں، اسی لئے تو اہلسنت والجماعت میں لوگ اس دن کو روزہ بھی رکھتے ہیں، اور عید بھی کہتے ہیں، کہ یہ دونوں ہی نفلی ہے، لہذا دونوں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں، نفی نہیں کرتے۔ 


ارمغان شیخ: اچھا تو پھر جو لوگ یہ عید نہیں مناتے تو کیا وہ غلط کرتے ہیں؟
محمد عمر:دیکھو بھائی، اسلام مسلمانوں کے عمل کا نام نہیں ، بلکہ اسلام قرآن اور حدیث کا نام ہے، جو بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو جاۓ وہ دین میں حجت ہو جاتی ہے، اور جس کا علم نہ ہو، وہ علم والوں سے پوچھ لیا جاتا ہے، کہ علم والوں سے پوچھنا بھی اللہ کا حکم ہے۔ 
ارمغان شیخ: لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب تو کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔
محمد عمر: یہ ڈاکٹر کون ہے؟
ارمغان شیخ: جی یہ دین کے بہت بڑے اسکالر ہے، اور ڈاکٹر بھی ہے۔
محمد عمر: دیکھو، ان ڈاکٹروں کو چھوڑوں، اللہ کے نبی نے علماء کو دین کا وارث کہا ہے، ڈاکٹروں کو نہیں۔ اور علماء وہ ہیں جنہوں نے اپنی ساری کی ساری زندگی ہی علم و عمل میں لگا دی۔
ارمغان شیخ: تو کیا مطلب یہ 3 سال ڈاکٹری پڑھنے والے جاہل ہے کیا؟؟
محمد عمر: دیکھو یار، ایسے تو ڈنگر ڈاکٹر بھی ڈاکٹری میں پانچ پانچ سال لگا دیتے ہین تو کیا وہ بھی اٹھ کر خود کو دین کا اسکالر لکھ لیں؟، اور افسوس کی بات کہ لکھ بھی لیتے ہیں، اور ایسے ہی لوگ پھر میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم پر لعن طعن کرنے لگتے ہیں، کیونکہ وہ بظاہر اللہ کے نبی سے محبت کے دعویدار ہوتے ہیں> اور اندر ہی اندر ریالوں اور ڈالروں کے چندوں کی خاطر اپنا دین ایمان عزت غیرت سب بیچ چکے ہوتے ہیں، او رپھر اسی طرح اللہ نے ان کو ان کے راستوں پر ہی مطمئن کر دیا ہوتا ہے، اور تیشک ان کے دل نفاق سے بھڑے پڑے ہیں؟


ارمغان شیخ: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے رسول سے محبت بھی کرتا ہو،
 اور آپ کی پیدائش کا دن بھی خاموشی سے گزاردے؟
محمد عمر:ایسا ہوسکتا ہے اور ہوا ہے ۔اب خود ہی دیکھو میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم اصل میں ہے ہی کیا؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پیدا ہونے کی خوشی۔ تو خود ہی بتاؤ اس پیدائش سے کس کو تکلیف ہو سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے محبت رکھنے والوں کو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے بغض و عداوت رکھنے والے اسلام کے دشمنوں کو؟؟  

ارمغان شیخ: اور یہ جو عیسائی اپنے نبی کی پیدائش پر کرسمس مناتے ہیں ،
تو کیا یہ عیسائیوں سے مشابہت نہیں؟
محمد عمر: عیسائی تو اپنے نبی کو خدا اور خدا کا بیٹا بھی کہتے ہیں، لیکن ہم مسلمان تو ایسا نہیں کہتے ناں، بلکہ ہم تو پیارے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے اور مانتے ہیں، اور پھر ویسے تو کپڑے وہ بھی پہنتے ہیں، تم بھی پہنتے ہو، کھانا وہ بھی کھاتے ہیں تم بھی کھاتے ہو، وہ بھی سوتے ہیں تم بھی سوتے ہو۔۔ مشابہت تو پھر ہو گئ ناں؟؟ یعنی پتہ چلا کہ ان کے غلط کاموں میں برے کاموں میں ان سے مشابہت نہیں ہو، یا دینی معاملات میں ان سے مشابہت نہیں ہو، لہذا وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو(استغفر اللہ)  اللہ کا بیٹا کہہ کر کرسمس مناتے ہیں، لیکن ہم مسلمان اہلسنت والجماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت کے مطابق نفلی روزہ رکھ کے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعریف و توصیف بیان کر کے اس کا بندہ اور رسول مانتے ہوۓ یہ دن مناتے ہیں، پھر مشابہت کیسے ہوئی؟؟

ارمغان شیخ: لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب اور محلے کے مولوی صاحب بھی تو کہتے ہیں 
کہ عید میلاد النبی ایک فضول ہی رسم ہے۔
محمد عمر: اللہ بیڑہ غرق کرے ان ڈاکٹروں اور ڈاکٹرنیوں کا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کے دن کو خاص کرنا اور اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کو فضول رسم کہا، یہی تو بات ہے، کہ تم لوگوں نے بھی اہل یہود کی طرح اپنے ڈاکٹروں اور مولویوں کو ہی اپنا خدا بنا لیا ہے، ورنہ میلاد کا ذکر تو قران و حدیث مین ہے۔ اور اگر یہ برا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کبھی اس کا ذکر نہ کرتے، بلکہ منع فرما دیتے اس سے بھی۔۔۔  

ارمغان شیخ: لیکن ہمارے تو امّی ابّو بھی نہیں مناتے یہ میلاد النبی۔
محمد عمر: دیکھو، اللہ قران مین فرماتے ہین، کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ۝۱۰۴ یعنی، (اور جب ان سے کہا جائے آؤ اس طرف جو اللہ نے اتارا اور رسول کی طرف (ف۲۴۹) کہیں ہمیں وہ بہت ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانیں نہ راہ پر ہوں ) ابھی خود ہی اندازہ لگاؤ، کہ اگر تمھارے ماں باپ جہالت کی ہی زندگی گزار رہے ہو، تو تمھیں ان کو سمجھانا چاہیے صحیح اور سیدھا راستہ دیکھ کر یا پھر سب کچھ جان کر بھی جہالت کی موت ہی انہیں بھی دے دینی چاہۓ اور خود بھی اسی موت سے مر جانا چاہیے؟؟؟  

ارمغان شیخ: لیکن نہ بابا نہ،، میرا ایمان بڑا مضبوط ہے، میں تو میلاد نہیں مناؤ گا۔ یہ تو بدعت ہے۔
محمد عمر:اچھا چلو یہ بتاؤ، کہ کیا تم لوگ اپنے گھر پیدا ہونے والے بچے کی خوشی نہیں مناتے؟؟؟؟ 
ارمغان شیخ: خوشی منانے اور خوش ہونے میں فرق ہے ۔
محمد عمر: ارے یہ کیا بات ہوئی؟ 
ارمغان شیخ: جناب بچے کی پیدائش پر ہر انسا ن فطری طور پر خوش ہوتا ہے کہ مذہبی طور پر؟
محمد عمر: میرے خال سے فطرت کا مذہب سے بڑا گھرا تعلق ہے، لہذا انسان جب تک مذہبی خوشی قبول نہ کرے اسے فطری خوشی حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔
ارمغان شیخ: مجھے تو تمھاری کوئی بات سمجھ نہین آ رہی پتہ نہیں تم کیا کہہ رہے ہو؟۔ 
محمد عمر: دیکھو جہاں تک خوشی منانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے بھی شریعت نے ساتویں دن عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور بارہ ربیع الاول کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے خود ہی روزہ رکھ کر بتا دیا، کہ یہ دن ان کیلئے خوشی کا دن ہے، اب تم ہی بتاؤ جس دن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم بھی خوشی کا دن منا رہے ہو، اور اس کا خاص ذکر بھی فرما رہے ہو، تو پھر امت کیلئے اس دن کو منانا حرام اور بدعت کیسے ہو گیا؟؟؟

ارمغان شیخ: لیکن یہ بھی تو ہے کہ میلاد النبی تو ابولہب نے بھی دنیا کے عام رواج کے مطابق اپنی لونڈی آزاد کر کے منایا تھا، لیکن اس کو تو عداوت تھی نبی سے، پھر یہ کیا میلاد منانا طریقۂ ابولہبی نہ ہوا؟؟
محمد عمر: او میرے بھولے بھائی، مسلمان لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم منانے کیلئے ابولہب کی دلیل لونڈي آزاد کرنا نہیں بیان کرتے، بلکہ اس لونڈی کے آزاد کرنے سے اس کے عذاب میں جو تخفیف ہو رہی ہے، اس کا ذکر کرتے ہیں، جو اللہ کے فضل و کرم کی طرف اشارہ ہے، کہ ایک بندہ جو کافر مرا، اور ساری زندگی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے نبی و رسول ہونے کے واسطے سے ان کو نہایت اذیت پہنچائی، لیکن اس کے باوجود بھی اس کو آقا علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی میں کیا گیا عمل رائیگاں نہیں گیا، بلکہ وہ عمل بھی اسے فائدہ دے رہا ہے، بلاشبہ وہ کافر ہی مرا، اور قیامت تک لعنت حاصل کرنے والوں میں نام رہا، لیکن پھر بھی میلاد مصطفی کی برکت سے وہ کچھ سکون حاصل کرتا ہے۔

ارمغان شیخ: پتہ نہیں تم کیا ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہو، مجھے تو کچھ سمجھ نہین آ رہی۔
محمد عمر: میں تو بس اتنا بتانا چاہ رہا ہوں، کہ عید میلاد النبی منانا بدعت نہیں، بلکہ اس کا انکار بدعت ہے۔ اور کیونکہ اس انکار سے ایک سنت ترک ہو رہی ہے، تو اس لئے یہ بدعت سیئہ ہے، جو گمراہی ہے۔ اور ہر گمراہی جھنم میں ہی لے جانے والی ہے۔ 
ارمغان شیخ: اچھا جی وہ کیسے؟
محمد عمر: دیکھو، ایک عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے ثابت ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیدائش کے وقت ابولہب کے طریقے سے بھی ثابت ہے، تو وہ بدعت (یعنی نئ ایجاد) تو ہو ہی نہین سکتا، اور پھر ابولہب کے عذاب میں تخفیف، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا خود اس دن کا روزہ رکھنا بتاتا ہے، کہ یہ عمل نہ ہی بدعت ہے، اور نہ ہی شریعت کے خلاف۔ لہذا پتہ چلا کہ اس کا انکار بعد میں ایجاد ہوا، اور کچھ نادان اور دین میں فتنہ پیدا کرنے والے شیطانوں نے یہ انکار ایجاد کیا، ورنہ اس کی کوئی اصل نہین ملتی، کہ یہ انکار کب سے جاری ہوا۔۔۔ اس لئے صحیح معنوں مین اس کا انکار ہی بدعت ہے۔ اور یہ بدعت ترک سنت ہے، اس لئے گمراہی و ضلالہ ہے، جو ہے ہی جھنم کا راستہ۔

ارمغان شیخ: میں نہیں مانتا، یہ سب جھوٹ ہے۔
محمد عمر: ارے یار ہر چیز تم کو قران و حدیث سے سنا رہا ہوں، پھر بھی نہین مانتے؟؟
ارمغان شیخ: میں اپنے ڈاکٹر صاحب سے پوچھ کر بتاؤں گا۔۔
محمد عمر: اوۓ کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے اپنے ڈاکٹر یا ڈاکٹرنی کی بات مانو گے؟ 
ارمغان شیخ: نہیں یہ بات نہیں، لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب تو یہ بھی کہتے ہیں، کہ 12 ربیع الاوّل میلاد شریف نہیں، بلکہ 12 ربیع الاوّل تو نبی کی وفات کا دن تھا۔
محمد عمر: دیکھو بھائی، یہ تو ایسا مذاق ہے دین کے ساتھ کہ پوچھو مت، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ درج فرما رہے ہے کہ آپ کی پیدائش 12 ربیع الاوّل کو ہوئی، اور پھر جمہور علماء اور ہر مؤرخ نے اس تاریخ کو رقم فرمایا ہے، اور پھر ہم تو کہتے ہیں، کہ چلو تمھارے مطابق 9 ربیع الاوّل ہے ناں، تو 9 تاریخ کو ہی میلاد منا لو، جھگڑا کیس چیز کا؟ اور یہ جو کہتے ہین کہ وفات کا دن 12 ربیع الاوّل تھا، تو وہ تو ہے ہی جھوٹے کذّاب، گمراہ لوگ ہیں حود بھی، اور امت کو بھی گمراہ کر کے فتنۂ و فساد کو دعوت دیتے رہتے ہیں، حالانکہ 12 ربیع الاوّل کسی بھی طریقے سے وفات کا دن بنتا ہی  نہیں اور نہ ہی ثابت ہے۔ یہ خارجیوں اور منافقوں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی روایات ہیں۔۔ 

ارمغان شیخ: اف میرے خدایا، اتنی بڑي حقیقت چھپائی گئ؟
محمد عمر: جی، کیا آپ اب بھی پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے میلاد شریف کی خوشی نہیں منائیں گے؟ 
ارمغان شیخ: نہین بھائی کیوں نہیں۔۔۔ آپ نے تو مجھے حقیقت سے آشکار کر دیا، ان شا اللہ میں آج ہی آپ کے ساتھ اپنے گھر اور محلے کو بھی سجاؤں گا۔ اور آپ کو نعت بھی سناؤں گا، میں بھی مسلمان سچا عمل کرنے والا عاشق رسول بننا چاہتا ہوں، بھائی کیا آپ مجھے نع
ت پڑھنا سکھاۓ گے ناں؟؟
محمد عمر: کیوں نہیں بھائی، ان شا اللہ،،، چلو ابھی چلیں گھر کافی ٹائم ہو گیا ہے۔ تم نے آج میرا بڑا دماع کھایا ہے، لیکن خوشی ہے کہ ہدایت والے بن گئے ہو، اب کبھی ان خارجی دجالوں کے وسوسوں میں نہیں آنا۔ 
ارمغان شیخ: جی آپ نے ٹھیک کہا، ان شا اللہ ایسا ہی ہو گا۔ 
محمد عمر: تو پھر زور سے ایک نعرہ لگاؤ میرے ساتھ،،،،، سرکار کی آمد؟؟؟؟
ارمغان شیخ: مرحبا، مرحبا، مرحبا۔۔۔ 

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تسلیما کثیرا
(رضا جی)