1400 سالہ اسلامی تاریخ پر ایک مختصر نظر۔
-------------------------- ----------------------
ایک بار ضرور پڑھ لیجیۓ گا، کچھ لمبا ضرور ہے، لیکن 1400 سال جتنا لمبا نہیں ہے، ہو سکتا ہے، یہ چند منٹ کی مصروفیت آپ کو صراط مستقیم دکھا دے، اور اور آپ کی ساری زندگی کا وقت آپ کا اثاثہ بن جاۓ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، سیدنا ابوکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی، سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما بالترتیب مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوۓ، آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے 6 ماہ حکومت کی، اور پھر مسلم امّہ کے وسیع تر مفاد میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر دستبردار ہوۓ، یوں خلافت راشدہ کا اختتام اور ملوکیت کی شروعات ہوئی، اور بنو امیہ کے پہلے بادشاہ اور ملوکیت کے واحد امانت دار اور سچے حاکم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہوۓ، جنہوں نے پورے عرب پر اور جہاں جہاں اسلام کا جھنڈا لہراتا رہا وہاں تک تقریبا کم و بیش 18 سے 19 سال حکومت کی۔
آپ کا احترام سب مسلمانوں پر لازم ہے، کہ بہت ساری احادیث آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرتی ہیں، اور آپ نے اپنے دور حکومت کو بے حد منصفانہ اور دین اسلام کی خدمت میں صرف کیا۔
یہاں پر یاد رہے، کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا، تو منافقین کی وجہ سے مسلمانوں میں جنگ و جدال کے باعث بہت سارے اختلافات پیدا ہو چکے تھے، جس کے بعد ہمیں دو نظام حکومت ملے، ایک تابع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خلافت راشدہ۔ جس کی بنیاد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے رکھی، جس پر کئ احادیث بھی دلالت کرتی ہیں، ، اور دوسری ملوکیت (یعنی بادشاہت)، جس کی بنیاد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رکھی، اور اس کا صحیح حق بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی ادا کیا۔
حضرت امیر معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کے بعد یزید کا دور شروع ہوا، لیکن چونکہ بہت سارے علماء اور صلحاء کے ساتھ ساتھ اہلبیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہما بھی اس کے اس منصب کو حق نہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ اپنی بادشاہت کو قائم کرنے کے شوق کو پورا کرنے کیلیۓ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تہ تیغ کرتے ہوۓ، مدینہ المنورۃ کی ویرانی اور وہاں قتل و غارت گری کا سزاوار بنا، ۔۔۔
اس کے بعد کبھی خلافت اور کبھی ملوکیت کا دور دورہ جاری رہا، ملوکیت والوں کے ہاں یزید بڑا پاک باز اور محترم ٹھڑا، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے اہل مدینہ ناحق اور باغی ٹھڑے، اور خلافت والوں کی طرف یزید ملعون اور پلید ٹھڑا، اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اہلبیت اطہار اور اہل مدینہ حق ٹھڑے۔ لیکن ان میں ایک گروہ اور بھی تھا، جس کا جھکاؤ تو ملوکیت کی جانب رہتا تھا، لیکن فتنہ و فساد برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا، یہ گروہ آپ کو آج بھی نظر آے گا، بس دل و جان سے نیوٹرل ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ گروہ ملوکیت کے مزے بھی لیتا ہے، اور خلافت کا جھوٹا نعرہ بھی اٹھاۓ رکھتا ہے، اور جب خلافت قائم ہو جاتی ہے، تو پھر شکوے اور شکایات سے لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہے، اس خوشامدی فتنہ پرور ٹولے کا مقصد بس مال بٹورنا اور فتنہ و فساد کا بازار سرگرم رکھنا ہوتا ہے، اور لوگ جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے، جن کا دین دلیلوں پر ہی قائم ہوتا ہے، وہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر ٹکڑیں مارتے ہوۓ تذبذب کا ہی شکار رہتے ہیں، اور آخر کار ان فتنہ پروروں کا ہی آلہ کار بن جاتے ہیں، کہ دین تو بہت مشکل ہے، مال پانی تو جمع ہو رہا ہے، اسے ہی جمع کرو۔۔۔
خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دورِ زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہوگئی تھی جن میں سب سے زیارہ زبردست تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنو ہاشم چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چاندان سے ہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو خلافت کا بنی امیہ سے خود کو زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔
بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعانِ علی کا طرفدار کہلاتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہلائے۔
دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضي اللہ تعالی عنہ کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا۔ شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آگیا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (686ھ) میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ بنو عباس کے غالب آنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ، امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے صاحبزادے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہوگیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبداللہ جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ 100ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کردیا اور اس طرح امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہوگئی۔
عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں منگول فاتح ہلاکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہوگئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خلافت تھی، تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے۔ عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہوگئی۔
پھر بہت ہی جنگ و جدال اور خون ریزی کے بعد سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے پر اناطولیہ میں طوائف الملوکی (یعنی ملوکیت) پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو عیسائیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہوگیا۔
خلافت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جو سچے عاشق رسول اور پکے سنی، اور غلام اہلبیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اور سچے ایماندار مسلمان تھے، جس کے حکمران ترک تھے۔ آج ہمیں مکۃ المکرمہ اور مدینت المنورہ میں جو تبرکات اور زیارات اور نشانات اور تاریخی مساجد دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ خلافت عباسیہ، اور بعد از خلافت عثمانیہ کے ہی مرہون منت ہیں، بیشک وہ اپس میں دولت و ثروت کیلیۓ لڑتے، لیکن وہ ان چیزوں اور تاریخی نشانات کا نہ صرف احترام کرتے تھ، بلکہ بوقت ضرورت اپنی اصلی حالت پر ہی مرمت کا کام بھی جاری رہتا تھا۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔
پھر جنگ و جدال اور عربوں میں دن بہ دن بڑھتے ہوۓ فتنے، اور نۓ نۓ نظریات اور منافقین کی چالیں رنگ لائی، جو کفار کا آلۂ کار بنے، اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خلافت کو پارہ پارہ کیا گیا، اور پوری کی پوری سلطنت عثمانیہ یعنی عرب و افریقہ کی ریاستوں کو احباب اور اغیار نے مل بیٹھ کر بانٹ لیا، اس طرح اپنوں ہی کی سازشوں کے بدولت تقریبا 625 سال خلافت عثمانیہ اور 1200 سالہ خلافت اسلامیہ کا سورج غروب ہوا، اور پھر ایک نۓ دور اور نۓ نظریات کی ابتدا ہوئی، جس میں یزید کو رضی اللہ عنہ، اور واقعۂ کرب و بلا میں حضرت حسین اور اہل بیت اطہار ر رضي اللہ تعالی عنہ اور اہل مدینہ کو ناحق کہا جانے لگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بحث و مباحثہ تجدید ایمان، اور تحقیق علم کے موضوعات سے شروع جگہ جگہ کروایا گیا، اس ابتدا کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خلافت سے ملوکیت کے نظریات ٹکڑاتے تھے، اور دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی، کہ ان پرانے نظریات کے لوگوں کے ساتھ ملکویت کا چلنا محال تھا، اس لیۓ ایک نیا نظام دین اور نئی اصطلاحات متعارف کروائی گئ، جو ایسی ہی تھیں، کہ کسی "دودھ پیتے ہوۓ کو کہنا، کہ پانی حلال ہے، تو پانی کیوں نہیں پیتا" ایسے ہی نظریات کو دولت اور طاقت اور "ڈیلنگ" کے ذریعے جگہ جگہ نشر کیا گیا، تا کہ یہ چدراہٹ دور دراز علاقوں تک قائم کی جا سکے۔ اور اس کام کیلۓ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، اور بہایا جا رہا ہے، لوگوں کے بچوں کو اغوا کر کر کے بی اپنے مدرسون میں لایا جاتا، ان کی تربیت اپنے مطابق کی جاتی پھر ان کو یا تو جہاد بنایا جاتا یا پھر ایسی جگہ مبلغ مقرر کیا جاتا، جہاں اپنے چودراہٹ کمزور نظر آتی، اور وہاں فتنہ و فساد معاذ اللہ قران و حدیث کے نام پر کیا جاتا، جو آج بھی ہم دیکھتے ہیں، اور جس کا خمیازہ یہ گلی گلی جھگڑے اور مناظرے اور خودکش حملوں کی صورت مین بھگت رہے ہیں، اور ہم اگر آنکھیں کھول کر غور سے دیکھیں، تو ہمیں اپنا ماضی بھی یاد آۓ گا، اور حال پر بھی عقل ٹھکانے آۓ گی، کہ اس غریبی کے دور میں بھی جہاں بجلی کا بل دینا اتنا ہی بڑا امتحان اور مشکل ہے، وہاں پر یہ نۓ نۓ مدرسے اور اسلحے سے لیس ٹولے کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں، اور ایک مدرسہ جسے نیشنل ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں جمعہ جمعہ آٹھ دن میں سنگ مرمر سے تعمیر ہونے والے محل نما یہ مدرسے کون انٹرنیشنل رجسٹرڈ کر رہا ہے، اور کون ان کو اسناد جاری کر رہا ہے، سوچنا چاہیۓ ہمیں، کہ ہم بنا تحقیق کس کی پیروی کر رہے ہیں؟؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں، کہ جسے ہم چھور رہے ہے، وہ ہی صحیح دین اسلام تھا، اور جس کو جذباتی ہو ہو کی قران و حدیٹ اور تحقیق کے نام پر کھینچ کھینچ کر پکڑ رہے ہے، وہی اصل فتنہ و فساد اور منافقت ہو؟؟؟ ۔۔۔ باقی ایک بات تو واضح ہے، کہ حکم اللہ کا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا، او ردین عشق و محبت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے، جس کے بغیر ہم صحیح پر قائم رہنے اور باطل کا منہ توڑنے کا جذبہ اور ہمت پیدا کر ہی نہیں سکتے۔۔۔ پلیز ایک بار رک کر سوچئے گا ضرور، کہ یہ جو ہمارے اردگرد تبلیغ و جہاد کے نعرے والے لوگ ہے، یہ کون ہے آخر؟؟؟ اور ان کا مقصد کیا ہے، کیا ان کی نظر میں آج مسلمان کوئی نہیں؟؟؟؟ یہ کس کو اچھا کہتے ہیں، اور کس کو برا۔۔۔ یہ سوچنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے، اللہ آپ کو اور میری راہنمائی فرماۓ، آمین۔ ثم آمین۔۔ ۔
صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلما تسلیما کثیرا
--------------------------
ایک بار ضرور پڑھ لیجیۓ گا، کچھ لمبا ضرور ہے، لیکن 1400 سال جتنا لمبا نہیں ہے، ہو سکتا ہے، یہ چند منٹ کی مصروفیت آپ کو صراط مستقیم دکھا دے، اور اور آپ کی ساری زندگی کا وقت آپ کا اثاثہ بن جاۓ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، سیدنا ابوکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی، سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما بالترتیب مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوۓ، آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے 6 ماہ حکومت کی، اور پھر مسلم امّہ کے وسیع تر مفاد میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر دستبردار ہوۓ، یوں خلافت راشدہ کا اختتام اور ملوکیت کی شروعات ہوئی، اور بنو امیہ کے پہلے بادشاہ اور ملوکیت کے واحد امانت دار اور سچے حاکم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہوۓ، جنہوں نے پورے عرب پر اور جہاں جہاں اسلام کا جھنڈا لہراتا رہا وہاں تک تقریبا کم و بیش 18 سے 19 سال حکومت کی۔
آپ کا احترام سب مسلمانوں پر لازم ہے، کہ بہت ساری احادیث آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرتی ہیں، اور آپ نے اپنے دور حکومت کو بے حد منصفانہ اور دین اسلام کی خدمت میں صرف کیا۔
یہاں پر یاد رہے، کہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا، تو منافقین کی وجہ سے مسلمانوں میں جنگ و جدال کے باعث بہت سارے اختلافات پیدا ہو چکے تھے، جس کے بعد ہمیں دو نظام حکومت ملے، ایک تابع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خلافت راشدہ۔ جس کی بنیاد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے رکھی، جس پر کئ احادیث بھی دلالت کرتی ہیں، ، اور دوسری ملوکیت (یعنی بادشاہت)، جس کی بنیاد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رکھی، اور اس کا صحیح حق بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی ادا کیا۔
حضرت امیر معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کے بعد یزید کا دور شروع ہوا، لیکن چونکہ بہت سارے علماء اور صلحاء کے ساتھ ساتھ اہلبیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہما بھی اس کے اس منصب کو حق نہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ اپنی بادشاہت کو قائم کرنے کے شوق کو پورا کرنے کیلیۓ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تہ تیغ کرتے ہوۓ، مدینہ المنورۃ کی ویرانی اور وہاں قتل و غارت گری کا سزاوار بنا، ۔۔۔
اس کے بعد کبھی خلافت اور کبھی ملوکیت کا دور دورہ جاری رہا، ملوکیت والوں کے ہاں یزید بڑا پاک باز اور محترم ٹھڑا، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے اہل مدینہ ناحق اور باغی ٹھڑے، اور خلافت والوں کی طرف یزید ملعون اور پلید ٹھڑا، اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اہلبیت اطہار اور اہل مدینہ حق ٹھڑے۔ لیکن ان میں ایک گروہ اور بھی تھا، جس کا جھکاؤ تو ملوکیت کی جانب رہتا تھا، لیکن فتنہ و فساد برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا، یہ گروہ آپ کو آج بھی نظر آے گا، بس دل و جان سے نیوٹرل ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ گروہ ملوکیت کے مزے بھی لیتا ہے، اور خلافت کا جھوٹا نعرہ بھی اٹھاۓ رکھتا ہے، اور جب خلافت قائم ہو جاتی ہے، تو پھر شکوے اور شکایات سے لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہے، اس خوشامدی فتنہ پرور ٹولے کا مقصد بس مال بٹورنا اور فتنہ و فساد کا بازار سرگرم رکھنا ہوتا ہے، اور لوگ جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے، جن کا دین دلیلوں پر ہی قائم ہوتا ہے، وہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر ٹکڑیں مارتے ہوۓ تذبذب کا ہی شکار رہتے ہیں، اور آخر کار ان فتنہ پروروں کا ہی آلہ کار بن جاتے ہیں، کہ دین تو بہت مشکل ہے، مال پانی تو جمع ہو رہا ہے، اسے ہی جمع کرو۔۔۔
خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دورِ زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہوگئی تھی جن میں سب سے زیارہ زبردست تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنو ہاشم چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چاندان سے ہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو خلافت کا بنی امیہ سے خود کو زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔
بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعانِ علی کا طرفدار کہلاتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہلائے۔
دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضي اللہ تعالی عنہ کی اولاد کو خلافت دلانا چاہتا تھا۔ شروع میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آگیا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (686ھ) میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ بنو عباس کے غالب آنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ، امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے صاحبزادے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہوگیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبداللہ جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ 100ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کردیا اور اس طرح امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہوگئی۔
عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں منگول فاتح ہلاکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہوگئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خلافت تھی، تمام اختیارات مملوک سلاطین کو حاصل تھے۔ عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہوگئی۔
پھر بہت ہی جنگ و جدال اور خون ریزی کے بعد سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے پر اناطولیہ میں طوائف الملوکی (یعنی ملوکیت) پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو عیسائیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہوگیا۔
خلافت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جو سچے عاشق رسول اور پکے سنی، اور غلام اہلبیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اور سچے ایماندار مسلمان تھے، جس کے حکمران ترک تھے۔ آج ہمیں مکۃ المکرمہ اور مدینت المنورہ میں جو تبرکات اور زیارات اور نشانات اور تاریخی مساجد دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ خلافت عباسیہ، اور بعد از خلافت عثمانیہ کے ہی مرہون منت ہیں، بیشک وہ اپس میں دولت و ثروت کیلیۓ لڑتے، لیکن وہ ان چیزوں اور تاریخی نشانات کا نہ صرف احترام کرتے تھ، بلکہ بوقت ضرورت اپنی اصلی حالت پر ہی مرمت کا کام بھی جاری رہتا تھا۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔
پھر جنگ و جدال اور عربوں میں دن بہ دن بڑھتے ہوۓ فتنے، اور نۓ نۓ نظریات اور منافقین کی چالیں رنگ لائی، جو کفار کا آلۂ کار بنے، اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خلافت کو پارہ پارہ کیا گیا، اور پوری کی پوری سلطنت عثمانیہ یعنی عرب و افریقہ کی ریاستوں کو احباب اور اغیار نے مل بیٹھ کر بانٹ لیا، اس طرح اپنوں ہی کی سازشوں کے بدولت تقریبا 625 سال خلافت عثمانیہ اور 1200 سالہ خلافت اسلامیہ کا سورج غروب ہوا، اور پھر ایک نۓ دور اور نۓ نظریات کی ابتدا ہوئی، جس میں یزید کو رضی اللہ عنہ، اور واقعۂ کرب و بلا میں حضرت حسین اور اہل بیت اطہار ر رضي اللہ تعالی عنہ اور اہل مدینہ کو ناحق کہا جانے لگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بحث و مباحثہ تجدید ایمان، اور تحقیق علم کے موضوعات سے شروع جگہ جگہ کروایا گیا، اس ابتدا کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خلافت سے ملوکیت کے نظریات ٹکڑاتے تھے، اور دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی، کہ ان پرانے نظریات کے لوگوں کے ساتھ ملکویت کا چلنا محال تھا، اس لیۓ ایک نیا نظام دین اور نئی اصطلاحات متعارف کروائی گئ، جو ایسی ہی تھیں، کہ کسی "دودھ پیتے ہوۓ کو کہنا، کہ پانی حلال ہے، تو پانی کیوں نہیں پیتا" ایسے ہی نظریات کو دولت اور طاقت اور "ڈیلنگ" کے ذریعے جگہ جگہ نشر کیا گیا، تا کہ یہ چدراہٹ دور دراز علاقوں تک قائم کی جا سکے۔ اور اس کام کیلۓ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، اور بہایا جا رہا ہے، لوگوں کے بچوں کو اغوا کر کر کے بی اپنے مدرسون میں لایا جاتا، ان کی تربیت اپنے مطابق کی جاتی پھر ان کو یا تو جہاد بنایا جاتا یا پھر ایسی جگہ مبلغ مقرر کیا جاتا، جہاں اپنے چودراہٹ کمزور نظر آتی، اور وہاں فتنہ و فساد معاذ اللہ قران و حدیث کے نام پر کیا جاتا، جو آج بھی ہم دیکھتے ہیں، اور جس کا خمیازہ یہ گلی گلی جھگڑے اور مناظرے اور خودکش حملوں کی صورت مین بھگت رہے ہیں، اور ہم اگر آنکھیں کھول کر غور سے دیکھیں، تو ہمیں اپنا ماضی بھی یاد آۓ گا، اور حال پر بھی عقل ٹھکانے آۓ گی، کہ اس غریبی کے دور میں بھی جہاں بجلی کا بل دینا اتنا ہی بڑا امتحان اور مشکل ہے، وہاں پر یہ نۓ نۓ مدرسے اور اسلحے سے لیس ٹولے کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں، اور ایک مدرسہ جسے نیشنل ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں جمعہ جمعہ آٹھ دن میں سنگ مرمر سے تعمیر ہونے والے محل نما یہ مدرسے کون انٹرنیشنل رجسٹرڈ کر رہا ہے، اور کون ان کو اسناد جاری کر رہا ہے، سوچنا چاہیۓ ہمیں، کہ ہم بنا تحقیق کس کی پیروی کر رہے ہیں؟؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں، کہ جسے ہم چھور رہے ہے، وہ ہی صحیح دین اسلام تھا، اور جس کو جذباتی ہو ہو کی قران و حدیٹ اور تحقیق کے نام پر کھینچ کھینچ کر پکڑ رہے ہے، وہی اصل فتنہ و فساد اور منافقت ہو؟؟؟ ۔۔۔ باقی ایک بات تو واضح ہے، کہ حکم اللہ کا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا، او ردین عشق و محبت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے، جس کے بغیر ہم صحیح پر قائم رہنے اور باطل کا منہ توڑنے کا جذبہ اور ہمت پیدا کر ہی نہیں سکتے۔۔۔ پلیز ایک بار رک کر سوچئے گا ضرور، کہ یہ جو ہمارے اردگرد تبلیغ و جہاد کے نعرے والے لوگ ہے، یہ کون ہے آخر؟؟؟ اور ان کا مقصد کیا ہے، کیا ان کی نظر میں آج مسلمان کوئی نہیں؟؟؟؟ یہ کس کو اچھا کہتے ہیں، اور کس کو برا۔۔۔ یہ سوچنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے، اللہ آپ کو اور میری راہنمائی فرماۓ، آمین۔ ثم آمین۔۔ ۔
صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلما تسلیما کثیرا